حال ہی میں نافذ کیے جانے والے سائبر کرائم قوانین پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے خیبرپختون خواہ پولیس نے سوشل میڈیا پر خواتین کو ہراساں کرنے والے 29 سالہ مہران اللہ کو گرفتار کر لیا۔
مہران اللہ اور اسکے ساتھی سماجی روابط کی ویب سائیٹس پر پہلے خواتین سے دوستی کرتے تھے اور بعد میں انکی نقلی قابل اعتراض تصاویر اور ویڈیوز بنا کرانہیں ہراساں کیا جاتا تھا۔
سائبر کرائم قوانین کے تحت کسی بھی پاکستانی شہری کی تصاویر اسکی مرضی کے بغیر اپلوڈ کرنا یا کسی کو ہراساں کرنے کے جرم میں تین سال قید اور 50 لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔
سائبر کرائم میں ملوث افراد اب بچ نہ پائیں گے
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سائبر کرائم کے قوانین لاگو ہونے سے قبل بھی ایسے بہت سے واقعات پولیس کے پاس رجسٹر کروائے جاتے تھے تاہم مناسب قانون سازی نہ ہونے کے باعث مجرم سزا سے بچ جاتے تھے۔
پاکستان کے نئے سائبر کرائم قوانین کم و بیش تین سال کی تگ و دو کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کروائے گئے ہیں۔ اس پر سب سے زیادہ اعتراض اپوزیشن اور این جی اوز کی جانب سے کیا گیا جنکے مطابق ان قوانین کو حکومت مخالفین کی آزادی رائے سلب کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔