گذشتہ ہفتے ترک حکومت کی جانب سے ملک بھر میں مائیکروبلاگنگ ویب سائیٹ ٹوئٹر کو بلاک کرنے کے عمل کو عالمی میڈیا نے خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ تاہم ترکی کی حکومت نے عالمی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے آج یوٹیوب پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔
ترک حکومت کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ بعض شرپسند عناصر سوشل نیٹورکنگ ویب سائیٹس کا استعمال کرکے حکومت کو نقصان پہنچانا چاہ رہے ہیں، ترکی کے عوام کو وزیر اعظم رسپ طیب اردگان کے خلاف بغاوت پر اکسایا جارہا ہے اور اہم فوجی راز کھلے عام ان ویب سائیٹس پر اپلوڈ کیے جارہے ہیں۔ ان تمام سرگرمیوں کا مقصد 30 مارچ کو ہونے والے لوکل الیکشنز کو سبوتاز کرنا اور ملک میں انتشار پیدا کرنا ہے۔
حکومت کے مطابق انہوں نے گوگل اور ٹوئٹر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یہ مواد جلد از جلد اپنی ویب سائیٹس سے ہٹا دیں تاہم انکے انکار پر مجبوراً حکومت کو ویب سائیٹس بلاک کرنا پڑیں۔
دوسری طرف حکومت مخالفین کا موقف یہ ہے کہ چونکہ الیکشنز قریب ہیں اس لیے حکومت اپنی ناقص کارکردگی اور کرپشن کو چھپانے کے لیے آزادی رائے پر قدغن لگانا چاہتی ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ مغربی میڈیا اور بین کی گئی انٹرنیٹ کمپنیاں گوگل اور ٹوئٹر بڑھ چڑھ کر ترک حکومت کے خلاف بیان بازی میں مصروف ہیں۔ تاہم جب امریکہ یا برطانیہ میں انٹرنیٹ پر پابندی کے قوانین متعارف کروائے جاتے ہیں تو کیا ترک میڈیا کی جانب سے بھی ایسا ہی ردعمل سامنے آیا تھا؟