انٹرنیٹ اور موبائل فون پر حکومتی پابندیاں : فائدہ کسے؟

دہشت گردی کی روک تھام اور مذہب کی آڑ میں موجودہ حکومت کی جانب سے پاکستانی شہریوں پر آئے روز لگائے جانے والی پابندیوں سے کون واقف نہیں؟ صورتحال اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ اب موبائل فون سروس کی لوڈ شیڈنگ ایک معمول بن چکی ہے اور حکومتی ادارے کسی بھی ویب سائیٹ کو اپنی مرضی سے بلاک کردیتے ہیں۔ ایسے قوانین بنائے جارہے ہیں جسکی بدولت حکومت کی جانب سے پاکستانی شہریوں کی جاسوسی کو قانونی حیثیت دی جاسکے۔

ban

آخر ان سب اقدامات کا مقصد کیا ہے؟ کیا حکومت آپ کی سانسوں کو بھی کنٹرول کرنا چاہتی ہے؟ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایسا صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کی عوام کو بھی کچھ ایسے ہی مسائل درپیش ہیں، جہاں SOPA, PIPA اور اب CISPA جیسے قوانین بنائے جارہے ہیں تاکہ عوام کو ہر طرح سے ’کنٹرول‘ کیا جاسکے اور حکومت مخالف کسی بھی تحریک کو آغاز سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے۔

918554_orig

پاکستان میں ذراع مواصلات اور شہریوں کی پرائیویسی پر ہونے والے ان نت نئے حملوں کے خلاف پڑھا لکھا طبقہ اور مختلف تنظیمیں زور شور سے آواز اٹھا رہی ہیں۔ اس حوالے سے یوٹیوب کی مثال ہی لے لیجئے۔ جس پر چند ماہ پہلے ایک توہین آمیز ویڈیو اپلوڈ کی گئی جس پر پوری دنیا کے مسلمانوں نے بھر پور احتجاج کیا اور گوگل سے فی الفور یہ ویڈیو خذف کرنے کا مطالبہ کیا۔ جن ممالک نے تو گوگل سے انٹرنیٹ پر تعصب پر مبنی مواد ختم کرنے کا معاہدہ کر رکھا تھا وہاں فوری طور گوگل نے یہ ویڈیوخذف کر دی مگر پاکستان اور چند دیگر ممالک جنہوں نے گوگل، فیس بک یا دیگر کسی بھی بڑے ادارے سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا ہوا وہاں اس ویڈیو کو بحال رکھا گیا ۔

حکومت کی جانب سے اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے مذہب کی آڑ لی گئی اور یوٹیوب کو پاکستان بھر میں بند کر دیا گیا۔لیکن کیا پاکستان میں یوٹیوب بلاک کردینے سے گوگل یا ویڈیو بنانے والے گستاخ افراد اور اداروں کو کوئی فرق پڑا؟ اس حوالے سے حکومتی وزیر رحمان ملک وقتاً فوقتاً مختلف بیانات دیتے رہے ہیں اور اطلاعات کے مطابق اب ایک نیا فائر وال سسٹم لاگو کیا جارہا جسکی بدولت پی ٹی اے کسی بھی ویب سائیٹ یا اسکے مخصوص حصہ کو بلاک کرسکے گی جسکے بعد یوٹیوب کو کھول دیا جائے گا۔ لیکن ایسا نظام تو پہلے ہی موجود ہے؟ تو پھر نیا سسٹم خریدنے کے لیے کروڑوں روپے کیوں خرچے جارہے ہیں؟ اگر گوگل سے توہین آمیز مواد ختم کرنے کا معاہدہ کر لینا مسئلہ کا مستقل حل ہے تو اس سے گریز کیوں کیا جارہا ہے؟ کیا مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی ایسی سازشوں کا واحد حل پابندی لگا دینا ہی ہے؟

یہ وہ سوالات ہیں جو کم و بیش تمام پاکستانی انٹرنیٹ صارفین کے ذہنوں میں ابھرتے ہیں۔ لیکن انکا جواب صرف حکومت کی نااہلی، کرپشن اور عوام پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کی خواہش ہے۔ ملک میں آئے روز ہونے والی موبائل لوڈ شیڈنگ سے دہشت گردی کی روک تھام میں تو شاید مدد نہ ملی ہو مگر پاکستان میں ہونے والی سرمایہ کاری میں ضرور کمی ہورہی ہے۔ جہاں صارفین کو کئی گھنٹے اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں موبائل کمپنیاں کو کروڑوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے جسکے نتیجے میں  پہلے سے کمزور ملکی معیشت زوال پذیر ہے۔

ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ اپنے اوپر لگائی جانے والی ان بے جا پابندیوں کے خلاف آواز اٹھائے اور حکومت کو اس بات پر مجبور کرے کہ وہ سیاسی دکان چمکانے کی بجائے مسائل کا اصل حل تلاش کری۔

ایک این جی او کی جانب سے جاری کیا گیا کیلنڈر جس میں اس سال حکومت کی جانب سے موبائل فون سروس پر پابندی لگائے جانے کا شیڈول دکھایا گیا ہے۔
msail