وفاقی حکومت نے ملک میں ٹیلی کام کی بہتری کے لیے کوئی کام کیا ہو یا نہیں، البتہ موبائل فون صارفین اور ٹیلی کام کمپنیوں کے لیے آئے روز نت نئی مشکلات پیدا کرنے میں کسی قسم کی کسر نہیں چھوڑی۔
ابھی صارفین آئے روز بڑھنے والے ٹیکسوں اور موبائل فون سروس کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلنے کے عادی نہیں ہوئے تھے کہ وزیر داخلہ رحمان ملک اور دیگر حکومتی اراکین کی مشاورت سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے موبائل نمبر پورٹ ایبلیٹی اور نئی موبائل سموں کی فرنچائزاور دکانوں پر فروخت پر پابندی عائد کر دی۔
ٹیلی کام کمپنیوں کو جاری کیے جانے والے حکم نامے کے مطابق فرنچائز اور دکانوں پر موجود تمام سموں کی فروخت کو بند کرنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔یکم دسمبر 2012 سے نئی سمیں صارفین کے شناختی کارڈ پر موجود پتہ پر ارسال کی جائیں گی۔ اسی طرح سال 2007 میں متعارف کروائی جانے والی سروس ’موبائل نمبر پورٹ ایبلیٹی‘ پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اس سروس کے ذریعے صارفین اپنے نمبر اور کوڈ تبدیل کیے بغیر دوسرے موبائل نیٹورک پر منتقل ہوسکتے تھے۔ اعدادوشمار کے مطابق ستمبر 2012 تک یہ سروس استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد 25 ملین کے قریب ہے۔
حکومت کے ان حالیہ اقدامات کی بدولت اب نہ توصارفین اپنا موبائل نیٹورک تبدیل کر سکیں گے اور نہ ہی کسی دکان یا فرنچائز سے نئی سم حاصل کرسکیں گے ۔اس حکومتی اقدام سے جہاں صارفین کو پریشانی ہوگی وہیں ہزاروں افراد کا روزگار چھن جائےگا جبکہ پہلے ہی کروڑوں پاکستانی اور خاص کر نوجوان اعلی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بے روزگار ہیں۔
گو کہ نئے قوانین کے مطابق سم صارف کے شناختی کارڈ پتہ پر بھیجنے سے غیر قانونی سمز کے اجراء رکے گا جسکی بدولت دہشت گردی اور جرائم کی روک تھام میں مدد ملے گی۔ لیکن ان اقدامات سے صارفین کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوجائیں گی، خاص کر وہ صارفین جو روزگار کے سلسلے میں دوسرے علاقوں میں مقیم ہیں انہیں اپنی سم اپنے شناختی کارڈ کے پتہ پر ہی جا کر وصول کرنا ہوگی اور جو صارفین اپنے موجودہ نیٹورک سے تنگ ہیں انہیں اب نیا نمبر خریدنا ہوگا۔
کیا حکومت کے یہ اقدامات درست ہیں اور واقعی اس سے دہشت گردی اور بڑھتے ہوئے جرائم پر قابو پایا جاسکے گا؟ یا پھر حکومت اپنی نااہلی چھپانے کے لیے ایک بار پھر عوام ہی کی گردن مروڑرہی ہے؟