اب روبوٹ کھیتی باڑی کیا کریں گے

دور حاضر کا انسان ٹیکنالوجی اور نت نئی ایجادات کا اس قدر عادی ہوچکا ہے کہ اسے ان کے بغیر ایک لمحہ جینا بھی اب دوبھر لگتا ہے۔ اس حوالے سے ترقی یافتہ ممالک آئے روز نت نئی ایجادات کر رہے ہیں جنکی بدولت ایک طرف تو آسانیاں پیدا ہورہی ہیں لیکن دوسری طرف انسان کام چور اور کاہل ہوتے جارہے ہیں۔

جاپانی حکومت کی جانب سے آج کل ’ڈریم پراجیکٹ‘ نامی ایک نئے منصوبے پر کام کیا جارہا ہے جس کی بدولت اب روبوٹس کھیتی باڑی کے کام سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ ذرعی اجناس کی پیکنگ اور ڈسٹری بیوشن کے بھی ذمہ دار ہونگے۔

اس حوالے سے 600 ایکڑ پر محیط ایک فارم تیار کیا جائے گا جہاں پھل ، سبزیاں ، گندم اور چاول اگائے جائیں گے۔ اس فارم کا تمام انتظام روبوٹس کے ہاتھ میں ہوگا نیز اس فارم میں کیڑے مار ادوایات کی بجائے ایل ای ڈی لائیٹس استعمال کی جائیں گی تاکہ سبزیوں اور پھلوں کو مضر صحت کیمیاوی اجزاء سے پاک رکھا جائے۔

جاپان کی جانب سے یہ اقدام حالیہ زلزلوں کی تباہ کاریوں اور نیوکیلئر پلانٹ سے تابکار مادہ کے اخراج  سے پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ جہاں پر کسان تابکاری کے اثرات اور زلزلوں سے خوف ذدہ ہیں اور کھیتی باڑی چھوڑ چکے ہیں۔ ذراع کے مطابق اس پراجیکٹ پر کم و بیژ 130 ملین ڈالر کا خرچ آئے گا ۔ اس پراجیکٹ میں بڑی بڑی کمپنیاں جیسے پیناسونک ، شارپ ، این ای سی وغیرہ حصہ لے رہی ہیں۔

لیکن کیا روبوٹس مستقبل میں کسانوں کی جگہ لے سکیں گے؟ وہ کسان جو شب و روز محنت کر کے زمین کا سینہ چیرتے ہیں اور گرمی سردی کی پرواہ کیے بغیر لذت بھری سبزیاں ،فصلیں اور پھل اگانے میں مصروف رہتے ہیں۔ اور اگر کل کو ان روبوٹس کے سسٹم میں کوئی وائرس آگیا اور روبوٹس نے کھیتی باڑی سے انکار کردیا اور اسکی بجائے حکومت میں اہم وزارتیں طلب کر لیں تو اسکا ذمہ دار کون ہوگا؟

منبع